Monday, May 21, 2007

سیاستدانوں کی غیر سیاسی مشیر ,,,,قلم کمان …حامد میر

خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔ اگر کسی کو گھنٹی کی آواز سنائی نہیں دیتی تو بلوچستان اسمبلی کی قرارداد کو دیکھ لے۔ بلوچستان میں مسلم لیگ (ق) اور متحدہ مجلس عمل کی مشترکہ حکومت ہے لیکن ہفتہ کو مسلم لیگ (ق) نے بلوچستان اسمبلی میں متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف قرارداد کی منظوری کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی بلکہ صوبائی اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) کے بعض ارکان نے اس قرارداد کی حمایت کی۔ ایم کیو ایم کے خلاف قرارداد کی حمایت میں مسلم لیگ (ق) کی صوبائی وزیر نسرین کھیتران نے ووٹ دیا۔ صوبائی وزیر قانون عبدالرحمان جمالی نے اس قرارداد کی مخالفت نہیں کی بلکہ اپنی تقریر میں کہا کہ ریلیاں نکالنے سے قوم کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ بلوچستان اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) کے ارکان کے رویے کو سامنے رکھا جائے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس ملتوی کیوں کئے گئے ؟ کتنی بدقسمتی ہے کہ پوری قوم 12 مئی کو کراچی میں ہونے والی خونریزی پر بدستور غمزدہ ہے اور اس خونریزی کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی چاہتی ہے لیکن پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اس اہم مسئلے پر آدھے گھنٹہ بھی بات نہ ہوئی۔ اپوزیشن نے دونوں ایوانوں میں نعرے بازی اور ہنگامہ آرائی کے ذریعہ حکومت کو اجلاس ملتوی کرنے کا جواز فراہم کر دیا۔ اگر قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی نہ ہوتا تو کراچی کے واقعات پر اپوزیشن کے علاوہ حکومتی ارکان کی طرف سے بھی اہم سوالات اٹھائے جانے تھے۔ سب سے اہم سوال یہ تھا کہ 12 مئی کو ایم کیو ایم کو کراچی میں ریلی نکالنے کا حکم کس نے دیا تھا ؟ اپوزیشن جماعتوں نے 12 مئی کی خونریزی کی ذمہ داری ایم کیو ایم پر ڈالی ہے اور ایم کیو ایم نے جواب میں یہ ذمہ داری اپوزیشن پر ڈال دی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے سوا مسلم لیگ (ق) کے کسی اہم رہنما نے کھل کر ایم کیو ایم کا دفاع نہیں کیا۔ شائد اس کی وجہ یہ ہے 12 مئی کو کراچی میں جو کچھ ہوا اس کے بعد ایم کیو ایم کی پیپلز پارٹی اور اے این پی کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کشیدگی کے باعث پیپلز پارٹی، اے این پی اور ایم کیو ایم کو متحد کرکے جنرل پرویز مشرف کی پشت پر کھڑا کرنے کی خواہش دم توڑتی نظر آ رہی ہے۔ اس خواہش نے کچھ عرصہ قبل واشنگٹن میں جنم لیا تھا۔ خواہش کا اظہار کرنے والوں کا منصوبہ یہ تھا کہ 2008ء میں جنرل پرویز مشرف وردی اتار دیں گے لیکن ان کی پشت پر ایک مضبوط سیاسی حکومت موجود ہوگی جس میں مسلم لیگ (ق)، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی بھی شامل ہو گی۔ اسی منصوبے کے تحت صوبہ سرحد کو بھی مسلم لیگ (ق)، پیپلز پارٹی اور اے این پی کی مخلوط حکومت کے حوالے کیا جانا تھا، سندھ میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کا اتحاد بننا تھا، بلوچستان میں مسلم لیگ (ق) اور کچھ قوم پرستوں کو ملانے کی آرزو تھی اور پنجاب کو صرف مسلم لیگ (ق) کے حوالے کیا جانا تھا۔ واشنگٹن والوں کی خواہش پر ایم کیو ایم کو اعتماد میں لیکر بے نظیر بھٹو سے بات شروع کی گئی، اے این پی بھی رابطے میں تھی لیکن 9 مارچ کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف کارروائی نے ان رابطوں میں دراڑیں ڈال دیں۔ 12 مئی کو کراچی میں خونریزی کے باعث پیدا ہونے والی غلط فہمیوں نے 2008ء میں جنرل پرویز مشرف کے ان متوقع اتحادیوں کو آپس میں لڑا دیا ہے۔ مسلم لیگ (ق) کے اکثر رہنما اس صورتحال سے خوش ہیں کیونکہ وہ اندر سے نہ تو ایم کیو ایم سے راضی تھے اور نہ ہی پیپلز پارٹی کے ساتھ اقتدار میں حصہ داری چاہتے تھے۔ 14 مئی کو قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور ایم ایم اے نے فوری طور پر ایم کیو ایم کے خلاف نعرے بازی شروع کر دی۔ ایم کیو ایم کیلئے تن تنہا اس نعرے بازی کا جواب دینا ممکن نہ تھا لیکن مسلم لیگ (ق) کے ارکان کی ایک بڑی اکثریت نے خاموشی اختیار کئے رکھی۔ یہ بھی واضح تھا کہ مسلم لیگ (ق) کے بعض ارکان قومی اسمبلی بھی ایم کیو ایم پر تنقید کریں گے لہذا مناسب یہی سمجھا گیا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر دیا جائے۔ سینیٹ کا اجلاس بھی اسی وجہ سے موخر کیا گیا۔ متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کی طرف سے 17 مئی کو جاری کئے جانے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر ہم حکومت میں ہوتے ہوئے بھی عوام اور کارکنان کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتے تو پھر ایم کیو ایم کو جھنڈے والی گاڑیوں میں پھرنے کا کوئی شوق نہیں۔ رابطہ کمیٹی نے وکلاء کو یقین دلایا کہ ایم کیو ایم ان کی آئینی اور قانونی جدوجہد کے خلاف نہیں ہے۔ اس بیان کے بعد سندھ کے گورنر عشرت العباد کو لندن بلا لیا گیا ۔ اب جبکہ کراچی کی ایک عدالت نے وکلاء پر حملے کے الزام میں سندھ حکومت کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیدیا ہے تو الطاف حسین کیلئے اپنا دفاع مزید مشکل ہو گیا ہے۔ ان کے بعض ساتھیوں کا خیال ہے کہ ایم کیو ایم کے خلاف غم و غصے کو ٹھنڈا کرنے کا سب سے موزوں راستہ یہ ہے کہ 12 مئی کے واقعات پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے معذرت کی جائے، سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے مشورے سے چیف جسٹس کو دوبارہ کراچی آنے کی دعوت دی جائے اور ایم کیو ایم کے وزراء خود کراچی ائر پورٹ پر چیف جسٹس کا استقبال کریں۔ الطاف حسین کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ آئندہ چیف جسٹس جب بھی کراچی آئیں ایم کیو ایم اس دن شہر میں کوئی ریلی نہیں نکالے گی اور اگر اسلام آباد سے اسی دن ایم کیو ایم کو کراچی میں ریلی نکالنے کی ہدایت دی جائے تو اسے تسلیم نہ کیا جائے خواہ اس انکار کے عوض حکومت ہی کیوں نہ چھوڑنی پڑے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ اگر ایم کیو ایم فوری طور پر مرکزی حکومت اور سندھ حکومت کو چھوڑ دیتی ہے تو سیاسی لحاظ سے اس کی پوزیشن متحدہ مجلس عمل سے بہتر ہو سکتی ہے جو مرکز میں مسلم لیگ (ق) کی مخالف اور بلوچستان میں مسلم لیگ (ق) کی اتحادی ہے۔ بہرحال یہ طے ہے کہ ایم کیو ایم ایک مشکل میں پھنس چکی ہے اور اس مشکل سے نکلنے کیلئے کوئی مشکل فیصلہ کرنا پڑے گا۔ 2007ء سب کیلئے مشکل فیصلوں کا سال ہے۔ جنرل پرویز مشرف نومبر 2007ء کے بعد وردی سمیت صدر نہیں رہ سکتے۔ انہیں وردی اتارنی ہے۔ نواز شریف جانتے ہیں کہ اگر وہ پاکستان واپس آئیں گے تو انہیں لاہور ائر پورٹ پر ایک ہوائی جہاز سے نکال کر سعودی عرب جانے والے دوسرے جہاز پر بٹھا دیا جائے گا لیکن وہ لاہور والوں کا امتحان لینا چاہتے ہیں اور اگلے چند مہینوں میں نہیں بلکہ ہفتوں اور دنوں میں واپسی چاہتے ہیں۔ نواز شریف کی طرف سے واپسی کا اعلان صرف لاہور والوں کو نہیں بلکہ پورے پنجاب کو مشکل میں ڈال دے گا۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں مشکل میں ہیں۔ اس صورتحال میں دونوں اطراف کو ایک دوسرے کا مقابلہ صرف سیاسی اور قانونی طریقے سے کرنا چاہئے۔ ذاتی انتقام اور ایک دوسرے کی کردار کشی پر نہیں اترنا چاہئے۔ چیف جسٹس کے ایک وکیل منیر اے ملک کے گھر پر فائرنگ ہو چکی ہے، اب چوہدری اعتزاز احسن کو پراسرار فون کالیں کی جا رہی ہیں اور ان کے خلاف اسکینڈل تراشنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما مخدوم سید یوسف رضا گیلانی اور شیری رحمان پر جس قسم کے الزامات لگانے کی تیاریاں ہیں اس کے ردعمل میں حکومت کی بعض شخصیات پر بھی ویسے ہی الزامات سامنے آ سکتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی قوتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی طریقے سے اختلاف کرنا چاہئے، غیر سیاسی قوتوں کے مشورے پر غیر سیاسی اور غیر اخلاقی ہتھکنڈے اختیار کئے گئے تو دونوں اطراف کی ساکھ مجروح ہوگی۔ سیاستدانوں کے غیر سیاسی اتحادی کبھی مسعود محمود بن کر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی لگواتے ہیں اور کبھی لیفٹننٹ جنرل ضیاء الدین بٹ کی طرح نواز شریف کو حکومت سے نکلواتے ہیں۔ سیاستدانوں کو غیر سیاسی اتحادیوں پر انحصار نہیں کرنا چاہئے۔ بالکل قائداعظم کی طرح !

No comments: