Saturday, June 2, 2007

جو میں نے دیکھا


جو میں نے دیکھا وہ آپ مجھ سے واپس نہیں لے سکتے۔
بس بات اتنی سی ہے۔
اب سے چند سال پہلے جب یہ سب ٹی وی چینلز شروع ہوئے تھے تو شائد کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ بات یہاں آ کر ٹہرے گی۔
ایک ایسی قوم کے لئے جو کرکٹ میچ یا پھر صرف جلد بازی میں تیار کئے گئے ڈرامے ٹی وی پر دیکھنے کی عادی ہو، اچانک سے پی ٹی وی کے خبرنامے کے علاوہ کوئی اور خبریں اپنی سکرین پر دیکھنا ایک دلچسپ تجربہ تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جلد ہی پاکستان ان بہت کم ملکوں میں شمار ہونے لگا جہاں سوپ ڈراموں کے بعد دوسرے نمبر پر ٹی وی پر سب سے زیادہ مقبول چیز خبریں اور خبروں سے متعلق مباحثے کے پروگرام بن گئے۔
یہاں تک سب کچھ ٹھیک ہی چل رہا تھا۔
لیکن پھر ایک بہت بڑی قدرتی آفت نے ملک کی حکومت اور میڈیا دونوں کو امتحان میں ڈال دیا۔ اکتوبر دو ہزار پانچ کے زلزلے سے ظاہر ہے حکومت نے تو کیا ہی کچھ سیکھنا تھا، میڈیا کے کچھ حلقوں کو یہ ضرور سمجھ آگیا کہ معلومات کے ساتھ ساتھ تصویر کی طاقت کیا ہوتی ہے۔
تصویر کی طاقت کیا ہوتی ہے اور یہ کیا کیا کر سکتی ہے؟ اس وقت پاکستان میں سبھی سیاسی حلقے ، حکومتی یا اپوزیشن، ملک میں موجود اس نئی حقیقت سے ڈیل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

بس کیا تھا۔ چیف جسٹس کے بحران میں پاکستانی میڈیا نے نہ صرف اس سیکھے ہوئے سبق کا بھر پور استعمال کیا بلکہ اس بحران کے شروع میں ہی بہت جلد بہت کچھ اور بھی سیکھ لیا۔
اس بحران میں پہلی مرتبہ پاکستان میں ڈی ایس این جی یا وہ آلات جس کی مدد سے لائیو کوریج کی جاسکتی ہے، کا بہت اچھا استعمال کیا گیا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے آج ٹی وی اور پھر آے آر وائی سامنے رہے جس کے بعد جیو ٹی وی نے بھی ایسا کیا۔
بارہ مئی کو جو کچھ کراچی میں ہوا ، وہ اس شہر میں پہلے بھی کئی مرتبہ ہو چکاہے فرق صرف یہ ہے کہ پہلے لائیو کیمرے نوجوان لڑکوں کو طرح طرح کی گنیں لوڈ کرتے ہوئے نہیں دکھاتے تھے جبکہ اب ٹی وی کا ہر ناظر شام کو دوستوں کے ساتھ بحث میں یہ کہہ سکتا ہے کہ ’میں نے خود دیکھا۔۔۔۔۔’شائد یہ بھی تصویر کی طاقت کی تشریح کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ آپ ایک مرتبہ ایک تصویر سے جو کچھ حاصل کرتے ہیں وہ پھر آپ سے کوئی چھین نہیں سکتا۔
جو میں نے دیکھا وہ میرا ہے۔
تصویر کی طاقت کیا ہوتی ہے اور یہ کیا کیا کر سکتی ہے؟ اس وقت پاکستان میں سبھی سیاسی حلقے ، حکومتی یا اپوزیشن، ملک میں موجود اس نئی حقیقت سے ڈیل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ بظاہر پاکستانی ریاست تاریخ کے ایک بنیادی سبق سے مکمل طور پر نظریں چراتی دکھائی دیتی ہے اور وہ یہ کہ : ان تصویروں کو آزاد نہ کیا تو یہ تصویریں ان سب کا پیچھا کریں گی۔

No comments: